انسانی حقوق کے علمبردار ادریس کمال، جو اب ہمارے درمیان نہیں رہے۔۔۔
June 10, 2014
محمد ادریس کمال نے1967ء میں صوبہ خیبرپختونخواہ کے ضلع نوشہرہ میں دریائے کابل کے کنارے واقع ایک چھوٹے گاؤں اکبرپورہ ترخہ میں مولوی نورالحق کے گھر میں آنکھیں کھولیں جو کہ وہاں کے مقامی مسجد میں پیش امام تھے۔اصل میں یہ ایک مذہبی گھرانہ تھا،لیکن اس کے باوجود اس گھرانے کے چند افرادپشتون قومی ترقی پسند سیاست میں ملوث تھے۔ادریس کمال کے چھوٹے چچا ایک سیاسی کارکن تھے اور ان سیاسی سرگرمیوں کی وجہ سے انہیں کئی بار جیلوں میں جانا پڑا۔ ادریس کمال نے اپنے چچا کو اپنی سرزمین اور اپنے لوگوں سے محبت کرتے دیکھ کر بڑا ہوا تھا، تو فطری طور پر اس کے دل میں اس مٹی سے محبت کا جذبہ موجود تھا۔بہت چھوٹی عمر میں اس نے ڈیموکریٹک سٹوڈنٹس فیڈریشن کے نام سے ایک ترقی پسند طالب علم تنظیم میں شمولیت اختیار کی۔اور بہت جلد اس تنظیم کا سربراہ مقرر ہوا، زمانہ طالب علمی میں ہی اس نے اس عمل کے دوران بہت اتار چڑھاؤ دیکھے۔وہ ایک پیشہ ورشخص تھے اور چارٹرڈ اکاؤنٹنسی میں اس نے ڈگری حاصل کی تھی۔بعد میں اس نے اپنی فرم کھولی، لیکن سیاست کی طرف انکی رجحان ہونے کی وجہ سے فرم سے خاطر خواہ نتائج حاصل نہیں کر سکے۔وہ اس ملک کے غریب لوگوں کی خاطر سیاست میں شامل ہو گئے تھے۔وہ طبقاتی نظام کے خلاف تھے کیونکہ اس وجہ سے انسان مختلف طبقوں میں تقسیم ہو گیا ہے۔اس نے اپنی پوری زندگی لوگوں کی خدمت اور ان کو انکے حقوق دلوانے میں وقف کی تھی۔وہ ایک کسان دوست اور مزدور دوست انسان تھے۔2009 ء میں اس نے انسانیت کے دفاع کیلئے لوگوں کو منظم کرنے کی ضرورت محسوس کی۔یہ باالعموم خیبرپختونخواہ اور بالخصوص سوات اور ملاکنڈ ایجنسی کے لوگوں کیلئے مشکل وقت تھا۔لاکھوں کی تعداد میں لوگ اپنے گھر بار چھوڑ کر مردان،چارسدہ، صوابی اور پشاور منتقل ہوگئے۔ادریس کمال نے اپنے دیگر سماجی اور سیاسی دوستوں کاپشاورمیں جرگہ بلا کر امن تحریک کا اعلان کیا۔یہ تحریک اسی دن یونیورسٹی روڈ پرایک ناراض جلوس نکال لے آئی جس میں اسٹبلشمنٹ اوردہشت گردی کے خلاف پرزور نعرے لگائے گئے۔ امن تحریک بہت جلد ملک کے کونے کونے میں پھیل گیا۔ تما م ترقی پسند اور قوم پرست سیاسی جماعتیں اس کے اراکین تھی۔۰۴ سے زیادہ چھوٹے بڑے غیر سیرکاری اور سماجی تنظیمیں اس کے ارکین میں سے تھے۔ایک سہ روزہ ورکشاپ میں اس تنظیم نے متفقہ طور پر ایک اعلامیہ منظور کیا جس کو اعلان پشاور کہا جاتا ہے۔ادریس کمال امن تحریک کے کنوینر تھے۔اور اس نے دہشت گردوں کے ہاتھوں شہیدوں،زخمیوں جسمیں پولیس اور عام شہری سب شامل ہیں اور بے گھر افراد کیلئے درجنوں کی تعداد احتجاجی جلوسیں،ڈائیلاگز،سیمیناراور دعائیہ تقریبات کا انعقاد کیا۔ ملالہ یوسفزئی کے والد ضیاء الدین یوسفزئی ادریس کمال کے بہت اچھے دوست تھے۔بعدازاں ادریس کمال نے سی آر ایس ڈی کے زیر اہتمام ایک سیمینار کا انعقاد کیاجس میں ملالہ یوسفزئی کو بھی شرکت کرنے کی دعوت دی گئی۔ادریس کمال نے بلوچستان کے وزیر اعلی ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ کے نیشنل پارٹی میں شمولیت اختیار کی تھی اور خیبر پختونخواہ کے جنرل سیکرٹری مقرر تھے۔7جون 2013ء کو ادریس کمال اپنے دوستوں کے ہمراہ ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ کے حلف برداری کی تقریب میں شامل ہونے کیلیے کوئٹہ پہنچے۔ اور 9 جون 2013ء کو تقریب میں شرکت کی اور اس کے اگلے ہی روز 10جون 2013ء کودل کا دورہ پڑنے سے جناح ہسپتال کوئٹہ میں وفات پاگئے
No comments:
Post a Comment